جمعرات, مارچ 28, 2024
صفحہ اولUncategorizedالغزالی یونیورسٹی کی درخشاں تاریخ اور ہمارا طرز عمل

الغزالی یونیورسٹی کی درخشاں تاریخ اور ہمارا طرز عمل

علی ہلال

پاکستان کے موقر دینی تعلیمی ادارے جامعة الرشيد کو یونیورسٹی کا درجہ دئے جانے کا فیصلہ سامنے آگیا ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔
جامعہ الرشید کا فکری جادہ کیا ہے۔ اس کے اہداف اور مقاصد کیا ہیں اور طرز تعلیم یا اس سے متعلق پالیسی کیسی ہونے چاہئیے۔
یہ ایک مستقل بحث ہے۔
بدقسمتی سے سابقہ دور حکومت میں جامعہ کو غیر معمولی تنقید کا سامنا رہا ۔ جس کی کچھ ٹھوس وجوہات بھی ہیں۔
جامعہ کے کچھ سیاسی فیصلوں سے اختلاف کی وسیع تر گنجائش موجود ہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ہما شما نے کچھ بولا ہو تو بولاہو۔ مگر جامعہ کی فیصلہ ساز قیادت نے خاموشی ہی کو ترجیح دیکر مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔

تاہم یونیورسٹی والے معاملہ پر میرا خیال ہے تنقید سے قبل تاریخی حقائق سے رجوع کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی یہ بھی ہے کہ مغربی تعلیم کی اجارہ داری اور ہیمنت نے ہمارا طرز حیات ہی نہیں ہماری سوچ وفکر کا زاویہ بھی تبدیل کردیاہے۔

دیکھا جائے تو کرہ ارض پر پہلی یونیورسٹی ایک اسلامی ملک پر قائم ہوئی ہے۔ جامعة القرويين مراکش کے شہر فاس میں واقع نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ کرہ ارض کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ جس کی تصدیق گنیز بک ورلڈ ریکارڈ اور اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسکو بھی کرچکا ہے۔

جہاں ایک مسلمان ریاضی دان نے ریاضی کی بنیاد ڈالی۔877ء میں بننے والی القرووین میں ابن خلدون جیسے جہابذہ علم نے حصول تعلیم کے بعد تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔

جبکہ اسی منہل سے مشہور یہودی عالم یوسف بن میمون نے بھی تعلیم حاصل کی۔ جس نے یہیں سے نکل کرعبرانی زبان کے صرف ونحو کی بنیاد ڈالی۔
تاریخ کی دوسری یونیورسٹی 970ء میں قاہرہ مصر میں ڈالی گئی۔ جامعةالازہر دنیا کی دوسری قدیم یونیورسٹی ہے۔

اس سے 110 سال بعد اٹلی میں یورپی سرزمین پر پولونیا کے نام سے پہلی یونیورسٹی بنی۔جس آکسفورڈ کے ساتھ ہم علم وتعلیم کی ہر کامیابی منسوب کرنے کے خوگر ہوچکے ہیں وہ تو 1167ء میں جاکر وجود میں آگئی ہے۔

کبھی یہ تصور مسلمان کے بارے امازیغ، کرد، بربر، اسپانوی یورپین کا تھا۔ وہ مسلمان کو لارڈ میکالا کہتے تھے۔ جس نے اپنی تعلیم کے ذریعہ دلوں پر کمند ڈالا تھا۔

مگر رفتہ رفتہ اسلامی دنیا میں محرومی بڑھ گئی۔ حکومتیں کمزور ہوگئیں۔ سلطنتوں کا شیرازہ بکھر گیا۔ فاتح عیش وطرب کی آغوش میں چلے گئے۔ جنگوں کی منصوبہ بندیاں کرنے والوں کی اولادیں خود غیروں کی مسلط کردہ جنگوں کی زد میں آگئیں۔ امن و امان غارت ہوا ۔ مسلمان فقر وفاقےکے شکار ہوگئے ۔ تو علم کی جگہ احساس محرومی وکمتری نے لے لی ۔ بھوک، کسمپرسی اور تاریخ سے لاعلمی انتہا پسندانہ افکار میں ڈھل گئی۔

آج کے دور کے انتہاپسندوں کی نظر میں یونیورسٹی ایک گناہ تصور کی جاتی ہے مگر حالات وواقعات کا تجزیہ کرلیا جائے تو یہ حقیقت سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ جب تک یونیورسٹی ہماری تھی ہم فاتح اور سر خرو تھے۔ ہمارا بول بالا تھا اور ہمارے ڈنکے بجتے تھے۔

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین