تحریر: محمد احمد مہر
سیر وسیاحت سے دلچسپی پرانی ہے، تاریخی مقامات دیکھنے اور شخصیات سے ملاقات کا شوق بھی،اس ذوق کے پیش نظر مختلف شخصیات کے احوال اور تاریخی مقامات کا تعارف آپ کی نظر کرتے رہتے ہیں۔ مئی کے ابتدا میں مخدوم مکرم حضرت ڈاکٹر مفتی محمد إدريس السندی صاحب کے وال پر پروفیسر محمد پنہل ڈھر کی لائبریری کا تذکرہ پڑھا کہ تاریخ سندھ اور رجال سندھ کے حوالے سے بڑی لائبریری ہے، تاریخِ کراچی پر سو سے زائد کتابیں موجود ہیں، یہ پڑھ کر تڑپ گیا، اپنی لا علمی کہ ابھی تک اتنی بڑی لائبریری کا تذکرہ تک نہیں سنا، فوری طور پر اپنے محسن اور بزرگ دوست مولانا خالد الحسینی صاحب سے رابطہ کیا اور اپنی خواہش کیا ذکر کیا. انہوں نے فرمایا کہ مجھے بھی بہت اشتیاق ہے، عنقریب ترتیب بناتے ہیں۔
پروگرام یوں بنا کہ مولانا ڈاکٹر محمود حسن صاحب صدر جمعیت علماء سندھ ابو رضوان مولانا عبداللطيف مہر کی تعزیت کے لیے کراچی سے تشریف لارہے تھے، ان کی معیت تعزيتی پروگرام میں شرکت کی، پھر ان کی رفاقت میں گوٹھ ابراہیم اندھڑ میں آئے،جہاں دوستوں نے پر تکلف عشائیہ دیا. اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے دو ممتاز عالم دین مولانا نور محمد اندھڑ رح (تلمیذ سید محمد انور شاہ کشمیری رح) مولانا عبد الباری اندھڑ رح (تلمیذ سید حسین احمد مدنی رح) دار العلوم دیوبند کے فاضل تھے. یہاں کے ایک اور عالم دین مولانا نذیر حسین تحریک ختم نبوت کے بانی رہنماؤں اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھیوں میں سے تھے.دوسری بات جو دوستوں نے بتائی کہ پورے گاؤں میں شرعی پردے کا اہتمام ہے. یہ یقیناً ان علماء کرام کی محنت کا نتیجہ ہے.
ڈاکٹر صاحب محمود حسن صاحب سے ہماری پہلی ملاقات تھی، ان کے اخلاق اور شخصیت نے متاثر کیا، اگرچہ گفتگو اور مجلس بہت محدود رہی، لیکن ہم نے انہیں ایک بااخلاق، متواضع اور محقق عالم پایا. ان سے اجازت لے کر رات گھوٹکی میں حسینی منزل میں قیام رہا،صبح ناشتے سے فارغ ہوکر ڈھرکی جانے کے لیے بس میں بیٹھے، گھنٹے سوا گھنٹے بعد ہم ڈھرکی پہنچ کر محترم جناب عبدالقدیر کانجوں کی دکان پر آئے،آپ علم وادب سے وابستہ شخصیت اور نیک انسان ہیں. پھر عبدالقدیر صاحب ہمیں منزل مقصود کی طرف لے چلے. ڈھرکی کے مضافات میں معمولی جنگل نما قصبہ میں داخل ہوئے، درخت کے نیچے پڑی چارپائیوں پر بیٹھے، ہر طرف کھیت ہی کھیت اور دوسری جانب جانور کھڑے تھے. سامنے کبوتر خانہ ، بکریوں کا ریوڑ کھڑا تھا. ہم سوچ میں محو تھے کہ یہاں اتنی بڑی لائبریری کیسے ہوگی. اسی دوران ایک نوجوان آیا، ہم نے ان سے پروفیسر صاحب کے بابت استفسار کیا، جواب ملا کہ ابو ابھی ابھی شہر گئے ہیں. اوہ! موبائل نمبر لیا اور رابطہ کرکے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد إدريس السندی کا حوالہ دیا کہ ان کے شاگرد ہیں، لائبریری دیکھنے آئے ہیں.
دس منٹ کے اندر اندر واپس تشریف لائے. حال احوال لیا، تفصيلی ملاقات ہوئی. نہایت خندہ پیشانی اور کشادہ دلی ہر بات کا تسلی بخش جواب دیتے رہے، لائبریری کا بھرپور دورہ کرایا. اس دوران ہم نے جو کچھ سوالات کیے تھے، وہ آپ کی نظر کررہے ہیں.
یہ کتابیں جمع کرنے اور لائبریری بنانے کا شوق جدی پشتی ہے کہ سوال کے جواب میں کہا کہ میرا خاندان ناخواندہ تھا، والد صاحب لکڑی کاٹ کر گزر سفر کرتے تھے، انہوں نے مجھے اسکول میں داخل کرایا. اس وقت لاشعوری کے زمانے میں کتابیں خریدتا تھا. جماعت اسلامی کے غلام رسول صاحب مولانا مودودی صاحب کی کتابیں پڑھنے کے لیے دیتے تھے. پرائمری اور ہائے اسکول کے بعد کالج میں پڑھنے کا مرحلہ آیا تو والد گرامی نے کہا کہ بیٹا! ہم غریب لوگ ہیں، اب تعلیم کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا، اس لیے میں کالج میں داخلہ نہیں لے سکا. اس پر دل بڑا مغموم ہوا.
لائبریری کا باقاعدہ آغاز کب اور کیسے ہوا کہ جواب میں گویا ہوئے کہ اس دوران اللہ کا کرم ہوا کہ 1982 پرائمری ٹیچر بھرتی ہوا. اب لائبریری بنانے کا شوق ہوا. میرا ذوق دیکھ کر دوست احباب بھی کتابیں دیتے تھے. ابتدا میں شاہ عبداللطيف بھٹائی پر زیادہ کتابیں جمع ہوگئی، تو اس مناسبت سے "شاہ عبداللطيف بھٹائی ریسرچ لائبریری”نام رکھا. پھر تاریخ اور شخصیات سندھ پر کتابیں جمع کرنے کا شوق ہوا، اس پر کتابیں جمع کرتا گیا.
محتاط اندازے کے مطابق ماہانہ کتنی کتابیں خریدتے ہیں؟ آج کل یہ حال ہے کہ ماہانہ پچیس سے تیس ہزار سے زائد کی وی پی چھڑاتا ہوں.
آپ خود عربی زبان نہیں جانتے، لیکن ایسی نایاب و نادر کتاب کیسے حاصل کرلیتے ہیں؟
یہ میرے محسن مفتی محمد إدريس السندی زیدمجدہم کی کرم نوازی ہے کہ نایاب کتابیں میری لیے جمع کرتے ہیں.کونسی کونسی بڑی شخصیات یہاں تشریف لاچکے ہیں؟ محقق سندھ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ڈاکٹر علی نواز شوق اور ڈاکٹر غلام محمد لاکھو جیسے اعلی پائے کے محققین یہاں تشریف لاچکے ہیں. اس کے علاوہ تحقیق وادب سے وابستہ سیکڑوں افراد آتے رہتے ہیں.
لائبریری کا کوئی کیٹلاگ یا فہرست بنائی ہے؟
لائبریری میں کوئی خاص ترتیب نہیں، موضوع کے اعتبار سے کتابیں رکھی ہیں.
ہم جب دیکھا کہ لائبریری کھچا کھچ بھری ہوئی ہے،تل دھرنے کی جگہ نہیں. کتابیں کمرہ، برآمدہ اور دوسرے کمرے میں رکھی ہوئی ہیں. پوچھا کہ مزید کوئی منصوبہ ہے؟ فرمایا کہ برابر میں خالی جگہ پڑی ہے، وسائل کی کمی کی وجہ سے توسیع نہیں کرسکے. ارداہ ہے کہ جلد یہاں ہال تعمیر کرائیں گے.
اتنی کتابیں خریدتے ہیں تو گھر کا خرچ کیسے چلتا ہے؟
کہا کہ گھر کا اکیلا ذمہ دار ہوں ، پہلے افراد کم تھے تو زیادہ کتابیں لاتا تھا، اب ڈر ڈر کے کتابیں لاتا ہوں.کبھی بیوی یا بچوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ سوال کے جواب میں کہا کہ بہت مرتبہ، لیکن تدبیریں کرتاہوں وہ اس طرح کہ وی پی چھپا کر اور قیمت مٹاکر کہتا ہوں کہ یہ کتابیں ہدیہ میں ملی ہیں. بچے ماں کو بتاتے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ قیمت مٹاکر آئے ہیں.
آپ کی لائبریری گھر میں ہے، کوئی مطالعہ کے لیے آئے تو استفادہ کیسے ممکن ہے، اس سوال کے جواب نے چونکا دیا، حیرت کی حد نہ رہی. بتایا کہ طلب صادق والوں کتاب دے دیتا ہوں کہ ساتھ لے جائیں، جب کام پورا ہوجائے تو واپس کرنا. کوئی ضمانت یا شناختی کارڈ کی کاپی لیتے ہیں، کہا کہ کچھ بھی نہیں، توکل کرکے دے دیتا ہوں. کبھی کسی نے دوکھا کیا ہے، کہا نہیں.
کوئی خواہش ہے، کہا کہ بس یہی خواہش اور تمنا ہے کہ علماء سندھ کی سب کتابیں چھپ جائیں اور خرید کر اپنی لائبریری کی زینت بناؤں.روفیسر صاحب خود شیعہ مکتب کے فکر سے وابستہ تھے، لائبریری میں انہوں نے ہمیں سندھی سنی علماء کرام کی وہ تمام کتابیں دکھائی جو شیعوں کے خلاف لکھی گئی ہیں. پیچھے اولاد میں کسی کو شوق ہے، جو آپ کا ورثہ سنبھالے اس سوال کے جواب میں کہا کہ معاملہ اللہ کے حوالے ہے.
کل کتابیں کتنی ہونگی تو بتایا کہ بارہ ہزار سے زائد ہونگے، لیکن ہمیں بیس ہزار سے بھی زیادہ لگ رہی تھی.
ان کی لائبریری کی خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ تاریخِ سندھ اور رجالِ سندھ پر تمام زبانوں میں شایع شدہ کتابیں موجود ہیں. ہم تو ان کے شوق کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکے، گاؤں دیہات میں ایک ایسا علمی ذخیرہ جمع کرنا، جو عارف نوشاہی جیسے ادیب بھی رجوع کریں، کمال کی بات ہے. یہ پروفیسر صاحب کی علم دوستی اور کتابوں سے عشق کا مظہر ہے. انہوں نے ہمارا اکرام بھی کیا، بہت عزت دی، جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔