سید الشہداامام حسین ؑ قرآنِ ناطق ہیں، عملی زندگی میں قرآن کا شامل نہ ہونا معاملات کی خرابی کا سبب ہے، شہرِ علم کے ماننے والے علم وتعلم کی راہ نہ چھوڑیں، اللہ پروردگار ہی عزت و ذلت کا دینے والا ہے اسی نے یزید کے گلے میں ذلت کا طوق ڈالا، امام عالی مقام اور اُن کے رفقاء کی قربانی تاقیامت فتح کی دلیل ہے، امام حسین کی شہادت نے مقتل کو مکتب میں تبدیل کردیا اورمکتب بھی وہ جو عالمگیر ہے، اِن خیالات کا اظہار مقررین نے جامعہ این ای ڈی کی یومِ حسین کمیٹی کے زیرِ اہتمام محمود عالم آڈیٹوریم میں منعقدہ”یومِ امامِ حسینؑ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔مثل سالہائے گزشتہ اس برس بھی یوم حسین کمیٹی نے اپنی روایت کو قایم رکھتے ہوئے”یومِ حسینؑ“کا انعقاد کیا جس سے معروف عالم دین ڈاکٹر ذکی باقری، معروف اہل سنت عالم ڈاکٹر جمیل راٹھور اور آیت اللہ عقیل الغروی نے خطاب کیا جب کہ معروف منقبت گو مرزا مظہر عباس، معروف نعت خواں قاری اسد الحق اور نوحہ خواں میثم کشمیری نے بارگاہ امامت میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔تلاوت ِ کلام الہی سے باقاعدہ اس بزم کی ابتدا کی گئی جب کہ نعت رسول خدا(ص)سے سماعتوں کو معطر کیا گیا۔
فلسفہ قرآن پر روشنی ڈالتے ہوئے کلیدی مقرر ڈاکٹر ذکی باقری کا کہنا تھاکہ کٹے ہوئے سر امام حسین ؑ کا قرآن کی تلاوت کرنا ثابت کرتا ہے کہ قرآن و اہل بیت جدا جدا نہیں ہیں۔انہوں نے طالب علموں پر زور دیا کہ روزانہ کی بنیاد پر 10آیاتِ قرآنی بمعہ ترجمہ پڑھنا خود پر لازم کرلیں۔ان کا کہنا تھا کہ کلام اللہ، قرآن ثامت ہے جب کہ آل محمد ؑ قرآنِ ناطق(بولنے والا) ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بزم حسینؑ کرکے یہ نہ سمجھیں کہ کام ہوگیا بلکہ حق پر ڈٹ کر بتائیں کہ آپ حسینی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فکرِ نظری کا عملی میں تبدیل نہ ہونے کی اصل وجہ قرآن سے دوری ہے۔اس یومِ حسینؑ کے موقعے پر اہلِ سنت کے معروف عالم ڈاکٹر جمیل راٹھور کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ واقعہ کربلا نے ہر تقسیم کومٹا دیا ہے،اب دنیا میں دو قسم کے افراد حسینی یا یزیدی ہی موجود ہیں۔اللہ پروردگار ہی عزت اور ذلت کا دینے والا ہے اسی نے یزید کے گلے میں ذلت کا طوق ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ یزید جانتا تھا کہ میں جبراً گردنوں پر مسلط ہوں جب کہ دلوں کے شاہ اور بادشاہ حسین رضی اللہ ہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ وہ ہیں جن کے والد کو دیکھنے سے عبادت اور نانا کو دیکھنے سے صحابیت ملتی ہے۔ مزید کہا کہ امام عالی مقام کا سفر، ان کاقیام سب بقائے دین کے لیے تھا۔
اس یوم حسین ؑمیں آیت اللہ عقیل الغروی کا کہنا تھا کہ شہرِ علم سے متمسک رہنے والے علم و تعلم سے نامساعد حالات میں بھی وابستہ رہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امام حسین(ع)، اُن کے انصار و اعزا کی قربانی رہتی دنیا تک فتح کی دلیل ہے. ان کا کہنا تھا کہ مقتل امام حسین(ع) مکتب میں تبدیل ہوگیا، جب کہ اس عالمگیر مکتب میں ہر رنگ و نسل کے افرادموجود ہیں جو کہ بلاتفریق حسینی ہیں۔ حسینی تحمل سے معاملات کو سمجھیں۔ ڈاکٹر سارہ کاظمی نے کربلا کی خواتین کے کردار کا ذکر کرتے ہوۓ کہا کہ کائنات میں دو قوتیں ہمیشہ رہی ہیں، ایک وہ قوت جو امرِالہی پر عمل پیرا ہے دوسری وہ جو امرِ الہی کو کاٹ کر اپنا امر دکھاتی ہے۔ امرالہیہ کی اطاعت کے لیے پروردگارِ عالم نے اہل بیتِ اطہار کو چُنا۔دربایزید ہو یا دربار ابن زیاد ہو، حضرت زینب ؑ نے اپنے خطبات میں یہ ثابت کردیاکہ دراصل امرِ الہی کی اطاعت ہی حیات ہے۔ اسی لیے حیات ِ جاوداں کے مالک رسول خدا(ص) کے اہل بیتؑ ہیں۔یومِ حسین (ع) میں جسٹس مقبول باقر، ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد نعمان، جے ڈی سی کے ظفر عباس، ٹیکنیکل اسٹنٹ تو دی وائس چانسلر دانش الرحمان، ڈاکٹر حسان اوج، ڈاکٹر اصغر علی سمیت بڑی تعداد میں عمائدین شہر نے شرکت کی۔ رجسٹرار سید غضنفر حسین نے مہمانانِ گرامی، اساتذہ،اسٹاف، طالبِ علموں سمیت یومِ حسین ؑکمیٹی کی رضاکارانہ کاوشوں کو سراہا جب سویڈن میں ہوئے سانحہ شہادتِ قرآن کے خلاف این ای ڈی میں منعقدہ یوم ِ حسینؑ کے شرکاء نے ہاتھوں میں قرآن بلند کرکے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔