جمعرات, مارچ 28, 2024
صفحہ اولUncategorizedالغزالی یونیورسٹی کراچی مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

الغزالی یونیورسٹی کراچی مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

تحریر : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

اگر آپ برطانوی انتداب سے پہلے کے برصغیر کے نظم ریاست کو دیکھیں تو ایک ہی ادارے کے فضلاء میں سے کچھ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز ہیں اور ان کے ہم درس تعلیمی اداروں کے شیوخ اور اساتذہ ہیں. برطانوی انتداب نے جب مسلمانوں سے اقتدار چھین لیا تو اس وقت جو لوگ سرکاری محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے اور حکومت کے لئے سول سروسز کے افراد تیار کرتے تھے انہوں نے متداول کورس درس نظامی کو رائج کر کے یہ پلاننگ کی کہ جب کبھی ہمیں دوبارہ اقتدار ملے گا تو ہمارے پاس ملک کا نظم ونسق چلانے کے لیے رجال کار ہوں گے۔

درس نظامی کے واقفان حال جانتے ہیں کہ اسے خواہ مخواہ دینی نصاب تعلیم کا نام دیا گیا ہے جبکہ اس کے کورسز کابڑا حصہ فارسی عربی ادبیات پر مشتمل تھا تاکہ اچھا فائل ورک کرنے والے تیار کئے جا سکیں. فقہ اور اصول فقہ کی چند ایک کتابیں مجسٹریٹ یا ججز مہیا کرنے کے لیے تھیں. منطق کی کتب معتد بہا تعداد میں تھیں تاکہ عمال حکومت کو نظم و ترتیب کی مہارت حاصل ہو جائے۔

جب زوال اور انحطاط آخری درجے کو پہنچ گیا اور سرکاری زبان انگریزی اور ذریعہ تعلیم بدیسی کر دیا گیا تو کچھ اساتذہ نے حدیث اور فقہ کے اختلافات کو موضوع درس بنا کر اپنی علمی دھاک بٹھا لی. ورنہ حدیث میں زیادہ سے زیادہ مشکوۃ یا سنن ترمذی کا چلن تھا تاکہ فقہی اختلافات تشتت و تفریق کا سبب نہ بنیں. یہ تو فتح الباری کے میسر اجانے کے بعد تدریسی منھج تبدیل ہو گیا۔

در حقیقت پاکستان بن جانے کے بعد تعلیمی نظام کی دوئی ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن انگریز جاتے ہوئے علی گڑھ کے جس طبقے کو اپنا جانشین بنا گیا تھا وہ درس نظامی کے فضلاء کو بدستور ناخواندہ سمجھتے رہے اور درس نظامی کے نام پر انسانی تاریخ کی سب سے بڑی این جی او وجود میں آگئی جس میں اربوں اور کھربوں کی ٹرانزیکشنز تھیں اور بہت سے لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہو گیا ۔

 ،رسمی تعلیم میں سطحیت تھی لیکن دائرہ کار وسیع ہو گیا جبکہ درس نظامی میں گہرائی لیکن علمی تنگنائے کا چلن تھا ، دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بے شمار مواقع آئے لیکن مدارس کے ارباب بست و کشاد اپنے مالیات کو پبلک کرنے کو تیار نہیں تھے، حالانکہ جسے اس ماحول میں کرپشن سمجھا جاتا ہے وہ رسمی تعلیمی اداروں میں مینجمنٹ کہلاتی ہے. بس ایک خوف تھا۔

مجھے یاد ہے کہ جب ایم ایم اے صوبہ سرحد میں برسر اقتدار تھی تو میں نے حضرت حنیف جالندھری سے عرض کی کہ میں آپ کو ایچ ای سی سے ورکنگ پیپرز تیار کروا دیتا ہوں، آپ اپنی صوبائی حکومت سے دو چار بڑے مدارس کو یونیورسٹی چارٹر لے دیں تاکہ معادلہ وغیرہ کے سب دلدر دور ہو جائیں لیکن ان کا خیال تھا کہ اس طرح حکومت کی ہمارے مالیاتی امور تک رسائی ہو جائے گی۔

تاہم کراچی سے الغزالی یونیورسٹی کا ایک لائق صد تحسین آغاز ہوا ہے اور مجھے یقین ہے کہ دیگر بڑے ادارے بھی یہی راہ اختیار کریں گے ، اسی راہ سے پاکستان ایک  اسلامی نظریاتی ریاست کی اپنی حیثیت برقرار رکھ سکے گے ۔

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین