تحریر : سید عزیز الرحمن
کراچی کا بین الاقوامی کتاب میلہ 2022 ختم ہو گیا۔ روز نامہ جنگ نے منتظمین کے الفاظ نقل کرتے ہوئے لکھا : کتاب میلے کے آغاز پر شائقین جتنے پرجوش تھے اس کے اختتام پر اتنا ہی افسردہ بھی تھے ۔ اور جناب محمود شام نے اپنی تازہ پوسٹ میں یہ تحریر کیا : کتاب میلے میں پانچ دن بھرے بھرے گزرے۔ آج کا دن خالی خالی گزر رہا ہے ۔
یہ سچی کیفیت ہے، اور امر واقعی کی درست عکاسی ، اس بار تو ایسا محسوس ہوا کہ شاید یہ میلہ ہمارے روز مرہ کے معمول کا حصہ بن گیا ہے ۔ پانچ روز یہی معمول رہا کہ ہم صبح میں دفتر، دوپہر بعد کوئی چار بجے کے قریب ایکسپو اور پھر ایکپسو سینٹر بند ہونے تک وہیں۔ یوں رات کو کوئی دس بجے کے قریب واپسی ۔
اب آج کہاں جائیں؟ اب تو یہ رونق ان شاء اللہ کوئی سال بھر بعد ہی میسر آ سکے گی ۔ اس سال کے بارے میں جس جس سے بات ہوئی، سب ہی کا کہنا تھا کہ شائقین کتب کی آمد اور خریداری دونوں نے اپنے سابقہ ریکارڈ بہتر کیے ہیں۔ اور پانچ روز کا ہمارا مشاہدہ بھی یہی کہتا ہے ۔
یہ اٹھارہ برس میں سترھواں میلہ تھا۔ یعنی اپنے آغاز کے روز اول سے آج تک صرف ایک برس 2020 میں کرونا کے سبب منعقد نہیں ہو سکا تھا۔ ہم روز اول سے ان میلوں کے شاہد ہیں، پھر ابتدائی ایک دو برس چھوڑ کر ہم نے اسٹال بھی لینے شروع کر دیئے تھے، یاد پڑتا ہے کہ پہلا اسٹال کوئی پچیس ہزار میں بک کرایا تھا، بلکہ بھلے وقتوں میں تو دعوہ اکیڈمی اور ایک آدھ برس ادارہ تحقیقات اسلامی کا اسٹال بھی رہا، یوں ہمیں اس میلے سے منسلک بہت سی باتیں دیکھنے کا موقع ملا، یہاں کی روایات بنتے اور پھر ٹوٹتے بھی دیکھیں، چند برس تو اس نوعیت کی دوسری کاروباری سرگرمیوں کی دیکھا دیکھی یہاں بھی ایک کاروباری عشائیے یا corporate dinner کا بھی اہتمام ہوتا تھا، جو اس گہما گہمی میں اس لیے مفید ہوا کرتا تھا کہ اس بہانے ناشرین اور بڑے کتابی تقسیم کاروں کو باہم مل بیٹھنے اور گپ شپ کرنے کا موقع میسر آ جاتا تھا، جو ان انتہائی ایام میں عام حالات میں نہیں مل سکتا ۔
مزید پڑھیں : عالمی کتب میلے میں 5 روز میں 5 لاکھ سے زائد شائقین کُتب کی شرکت
یہ اہتمام عرصہ ہوا، ختم ہو چکا، اسی طرح ابتدائی برسوں میں کچھ اداروں کو سستے داموں یا کسی اور غیر سرکاری ادارے کے توسط سے بھی اسٹال مل جاتے تھے، جس کے سبب ناشرین کا تنوع بہتر رہتا، مگر وہ سلسلہ بھی معطل ہوا۔ لیکن کتب میلہ جاری ہے، اور لوگوں کا جوش و خروش بھی مسلسل روبہ ترقی ہے۔
اس میلے میں عام طور پر دن کے اوقات میں اسکولوں کے بچے رونق بڑھاتے ہیں، اور پھر جوں جوں شام ہوتی جاتی ہے، میکدہ آباد تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر رات نو بجے تک یہی کیفیت رہتی ہے۔ اس بار اتوار کو جب اسٹال بند کر کے ہم باہر نکلنے لگے تو گھڑی میں نو بج کر دس منٹ سے بھی کچھ اوپر کا وقت تھا، اور ہال کے داخلی راستے پر ایک ہجوم عاشقان کتب اندر داخل ہونے کو بے قرار تھا۔نوبت یہ آ چکی تھی کہ منتظمین کے لیے انہیں روکنا ممکن نہیں رہا تو انہوں نے آدھا دروازہ ہی بند کر دیا، لیکن یہ اس کا حل کہاں ہو سکتا تھا۔
ظاہر ہے کہ ہم سب کو بھی باہر نکلنا تھا، ہم نے یہ صورت دیکھی تو بلند آواز سے کہاکہ دروازہ کھولو اور اندر آنے کو بے قرار ہجوم سے کہا کہ اسٹال بند ہو چکے ہیں، اس لیے اندر داخل ہونے کا کچھ حاصل نہیں، پھر یہی بات کچھ اور افراد نے بھی دہرائی تو وہ ہجوم واپس لوٹا، مگر ایک حسرت و یاس کی کیفیت ان کے چہرے پر دیکھی جا سکتی تھی۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ ذکر کسی سیاسی اجتماع، کسی کھانے پینے، یا کپڑے لتے کی نمائش کا نہیں، کتابوں کی نمائش کا ہو رہا ہے، اسی کتاب کا، جس کے بارے میں کہنے والے کہہ چکے کہ یہ کتاب کی آخری صدی ہے، اسی نمائش میں ایک صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ یہ تو کتاب شناسی، اور کتاب بینی کی پہلی صدی معلوم ہوتی ہے ۔
جاری ہے