ہفتہ, ستمبر 14, 2024
صفحہ اولتازہ ترینوفاقی اردو یونییورسٹی اپنی تاریخ کے سنگین ترین مالی بحران میں داخل

وفاقی اردو یونییورسٹی اپنی تاریخ کے سنگین ترین مالی بحران میں داخل

کراچی : وفاقی اردو یونییورسٹی اپنی تاریخ کے سنگین ترین مالی بحران میں داخل ہو گئی ہے ۔قائم مقام وائس چانسلر اور ٹریژرار اسلام أباد کے دوروں اور ٹی اے ڈی اے وصول کرنے میں مصروف ہیں ۔  کے نعرے لگنا شروعNo Salary No Work ملازمین تنخواہوں اور پنشنذز پنشن کے لیے پریشان ہیں اور منتخب ایسوسی ایشنیں خاموش ہو گئی ہے ۔

اردو زبان میں تعلیم کے فروغ کے لیے قائم ہونے والی وفاقی اردو یونیورسٹی اپنی تاریخ کے سنگین مالی بحران میں داخل ہو چکی ہے ۔ گزشتہ چند ماہ سے مستقل ملازمین کو کبھی تاخیر سے اور کبھی قسطوں میں ادا کی جا رہی تھیں ۔ اس ماہ میں نہ صرف مستقل ملازمین کو نصف تنخواہیں ادا کی گئی ہیں بلکہ پنشنرز کو بھی آدھی پنشن دی گئی ہے جب کہ آدھا مہینہ گزرنے کے باوجود رینٹل سیلنگ اور بقیہ تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا ۔

موجودہ قائم مقام انتظامیہ ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے سارا ملبہ ہائر ایجوکیشن کمیشن پر ڈال رہی ہے ۔ جب کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے اردو یونیورسٹی کو اگلے تین ماہ کی مکمل گرانٹ دی جا چکی ہے ۔

مذید پڑھیں : وفاقی جامعہ اردو : قائم مقام انتظامیہ پچھلی تاریخوں میں غیر قانونی تقرریاں کرنے لگی

ایسی صورت حال میں مسئلہ بد انتظامی اور نا اہلی کا دکھائی دے رہا ہے ۔ ایک طرف تو ملازمین اور پنشنرز سخت اذیت میں مبتلا ہیں تو دوسری طرف قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین اور قائم مقام ٹریژرار بار بار سرکاری اخراجات پر اسلام آباد کے دور کرنے اور اس کے عوض ٹی اے ڈی اے کی رقم حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔

اردو یونیورسٹی میں تنخواہوں کا مالی بحران اس وقت شروع ہوا جب سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا کو صدر پاکستان کے دوست جناب زوہیر عشیر اور سابقہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جناب اے کیو خلیل اردو یونیورسٹی کے مسائل سے نجات دلانے کے لیے کینیڈا سے لے کر آئے ۔

ڈاکٹر اطہر عطا پر پہلے ہی دن سے اے کیو خلیل نے دباؤ ڈال کر چند انتظامی تبدیلیاں کرائی ، جس کے بعد یہ مالی بحران کا آغاز ہوا ۔ ڈاکٹر اطہر عطا تو مبینہ معاہدہ کے مطابق اپنے چند دن یہاں گزار کر اور مخصوص تبدیلیوں کے بعد کینیڈا واپس روانہ ہو گئے اور جاتے جاتے یونیورسٹی کے ملازمین کو سخت مالی مشکلات میں دھکیل گئے۔

اس کے بعد اے کیو خلیل اور ان کے قریبی اراکین سینیٹ نے یونیورسٹی کے ساتھ دوسرا تجربہ کیا اور سرقہ نویسی کے سنگین الزامات کے باوجود پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو قائم مقام وائس چانسلر بنوایا ۔ یہ تجربہ اردو یونیورسٹی کو مزید مالی بحرانوں میں دھکیلنے کا باعث بنا۔

مذید پڑھیں : پاکستان میں پہلی بار علمائے کرام نے الغزالی یونیورسٹی کا چارٹر حاصل کر لیا

موجودہ قائم مقام انتظامیہ کی نااہلی، بدانتظامی اور اقربا پروری نے اردو یونیورسٹی کے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ایک طرف تو کراچی یونیورسٹی کی تمام ملازمین کی انجمنیں مشترکہ طور پر محض چند دن تاخیر کی تنخواہ کی ادائیگی پر سراپا احتجاج ہیں اور دوسری طرف اردو یونیورسٹی کی ملازمین کی انجمنیں بالکل خاموش دکھائی دیتی ہیں۔

ان انجمنوں کی پر اسرار خاموشی کے پس پشت چند عہدیداران کی طرف سے مخصوص عہدوں، مالی فوائد اور ترقیوں کا حصول بتایا جاتا ہے ،جن  کے خلاف نعروں پر مبنی مہم کا آغاز ہو چکا ہے ۔ جس سے No Salary No Work جا رہا ہے ۔

خدشہ ہے کہ اردو یونیورسٹی کی منتخب انجمنوں کی افادیت کم ہو جائے گی اور چند اساتذہ کی طرف سے از خود بہت جلد احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائے گا ۔ جس سے یونیورسٹی مزید بحرانوں کا شکار ہو سکتی ہے ۔

اس حوالے سے وفاقی جامعہ اردو کے قائم مقام ٹریژرار عاصم بخاری نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ہمیں جو گرانٹ دے رہا ہے اس سے کم دیگر اخراجات بھی کرتے ہیں اور اساتذہ کی تنخواہیں بھی ادا کر رہے ہیں تاہم فی الوقت یہ بتانا مشکل ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے دیئے گئے کتنے پیسے ہیں اور ان میں سے تنخواہ کی مد میں کتنی رقم خرچ کی جاتی ہے اور کتنی رقم دیگر مد میں لگاتے ہیں ۔ تنخواہوں کی حد تک کے مالی بحران کی وجہ کے بارے میں انہوں نے کوئی جواب دینے سے گزیز ہی کیا ۔

News Desk
News Deskhttps://educationnews.tv/
ایجوکیشن نیوز تعلیمی خبروں ، تعلیمی اداروں کی اپ ڈیٹس اور تحقیقاتی رپورٹس کی پہلی ویب سائٹ ہے ۔
متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں

مقبول ترین