جی ہاں، اسکول سسٹم کا یہ ایک سیاہ کردار ہے۔
جان ڈی راکفیلر نے 1903 میں امریکی جنرل ایجوکیشن بورڈ قائم کیا اور پانچ سال کے اندر اندر 1.27 بلین ڈالر کا بڑا اور حیرت انگیز عطیہ ایجوکیشن سسٹم کو کیا۔
راک فیلر نے ایسا کیوں کیا؟
وہ دراصل امریکی عوام کے سامنے خود کو نجات دہندہ کے روپ میں پیش کرنا چاہتا تھا۔۔ اس تاثر کو قائم کرنے کے لئے اس کا طریقہ واردات کچھ یوں تھا:
راک فیلر اور اس کے ہمنوا رابر بیرنسrobber barons اپنی بے پناہ طاقت اور دولت کو امریکی عوام سے پوشیدہ رکھنے کے بجائے اپنا امیج تبدیل کرنا شروع کردیا۔ اس طرح وہ عام امریکیوں کی ناراضگی مول لینے سے بچنے کا راہ تلاش کرنا چاہتے تھے۔
مزید پڑھیں:آئی ایم ایف یا ڈیفالٹ؟ فیصلہ آپ کا ہے : مفتاح اسماعیل
لہذا تیل کے اس بڑے سوداگر oil tycon یعنی جان ڈی راک فیلر اور اس کے بیٹے جان جونئیر نے اپنے پبلک امیج کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔
جان سینیر نے امریکیوں کے دل و دماغ جیتنے کے لئے اپنے ’انسان دوست’ ‘philanthropist‘ ہونے کے تصور کو خوب پھیلایا، پبلی سائز کیا۔
اس نے یہ تاثر دیا کہ وہ ایک اچھا انسان ہے لہذا اسے دولت کی ضرورت نہیں، وہ امریکی نظامِ تعلیم کی بہتری کے لئے بہت فکر مند ہے۔ وہ امریکی سماج کو مہذب و سویلائزڈ بنانا چاہتا ہے۔ مگرحقیقت اس کے برخلاف کچھ یوں تھی جس کی جانب ایلون ٹوفلر نے ان الفاظ میں اشارہ کیا:
ترجمہ: ’’ایک مرکزی اسکول (یعنی فیکٹری) میں اساتذہ (یعنی کارکنان) کے ذریعہ عمل کرنے کے لئے طلباء (یعنی خام مال) کو جمع کرنے کا پورا خیال درحقیقت ’صنعتی ذہانت ‘کا ہی شاخسانہ تھا۔ اس (جدید) تعلیم کی یہ پوری صنعتی درجہ بندی، جیسے جیسے پروان چڑھی، یہ صنعتی افسر شاہی یا بیوروکریسی کی پیروی کرنے لگی(یا اسکے ماتحت چلی گئی)۔
مزید پڑھیں:ژوب : نرسنگ ہسپتال کی طالبات کے احتجاج میں اہم مطالبات
نالج یا علم کی مستقل شعبوں میں ہونے والی یہ تنظیم و ترتیب دراصل صنعتی مفروضے ہی پر مبنی تھی جس میں بچے جگہ جگہ مارچ کرتے اور مقررہ مقامات پر پہنچائے جاتے ہیں اور وقت کی تبدیلیوں کا اعلان کرنے کے لیے گھنٹیاں بجتی ہیں۔
اس طرح اسکول کی اندرونی زندگی بھی اسی ذہنیت و منہج کی آئینہ دار اور صنعتی سماج کا ایک نمونہ یا بہترین تعارف پیش کرتی ہے۔آج تعلیم کے چند تنقید ی پہلوؤں میں سخت نظم و ضبط، انفرادیت کی کمی، نشست و برخاست کا کڑانظام، گروہ بندیاں ،درجہ بندیاں اور مارکنگ کا سخت نظام شامل ہیں۔ استاد کا آمرانہ کردار بالکل وہی ہے جس نے بڑے پیمانے پر عوامی تعلیم کو اس کے (صنعتی سماج میں مخصوص) مقام اور وقت کے لیے اپنانے کا ایک ذریعہ بنایا‘‘۔
ایلون ٹافلرنے جو کچھ کہا تھا وہ سچ ثابت ہوا۔ اور انڈسٹری ٹائیکون راک فیلر کی مطلوب ورک فورس کے لئے یہ نظام بالکل مناسب اور شاندار تھا۔ بچوں کو اس اسکولی نظام میں دھکیلا گیا۔ اس زمانے میں ’فری فراہم کیا جانے والا یہ ایجوکیشن سسٹم‘ اس روایتی معاشرے سے جدید صنعتی معاشرے میں تبدیل ہوتی اقدار و سماج کے عین مطابق تھا۔
مزید پڑھیں:اسلام آباد : IIUI نے داخلہ کی آخری تاریخ 2 جنوری 2023 تک بڑھا دی
دورِ حاضر میں یہ روایتی اسکولی سسٹم بری طرح بے نقاب ہوا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس وقت بھی اکثر والدین اپنے بچوں کو اسکول اور کالج کے نظام کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہی ہے کہ عصرِ حاضر کا اسکولنگ سسٹم تاحال 1920 کے زمانے ہی کی نہج پر گامزن ہے۔ مگر اسکی ڈگریاں دن بدن بے وقعت و بے حیثیت ہوتی جارہی ہیں۔ وہ لوگ جو نہیں جانتے کہ انھوں نے کیا کرنا ہے وہ اسی قسم کے تاجرانہ ٹائپ اسکولوں میں خوشنما خوابوں کے تارِ عنکبوت لئے داخل ہورہے ہیں۔
فیکٹری مالکان کو ایسے ہی شائستہ، بات ماننے پر آمادہ اور اپنے فیکٹری مینیجرز کے فرمانبردار لوگوں کی ورک فورس حاصل ہورہی ہے۔ یہ اسکولز سسٹم پر سوال اٹھانے کے بجائے بھیڑ چال چلنے والوں کے لئے ڈیزائن ہوئے ہیں۔ یہ ڈاکٹرز، انجینئرزاور دیگر پروفیشنلز بنانے کی مصنوعاتی فیکٹریاں ہیں ۔
یہ بالکل ویسا ہی نظام ہے جیسا کہ راک فیلر چاہتا تھا۔ اسکے بڑے بڑے چندے اور عطیات اسی مقصد کے لئے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔