تحریر: راشد احمد کھوسو
دنیا میں واحد چیز جس پر کوئی پابندی نہیں لگاسکتا وہ ہیں خواب چاہے اچھے ہوں یا برے ہوں کچھ ایسے خواب بھی ہیں جن کی تکمیل بآسانی ہوتی ہے اور کچھ خواب تو سننے والوں کو بھی خواب ہی لگتے ہیں
میرا خواب
بورڈ آفس کی زیادتیاں اور میرے دوستوں کا کردار
میں نے دیکھا کہ امتحانات کی تاریخ کا اعلان ہوا تو میرے دوستوں نے اخبارات میں بیانات جاری کرکے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھانا شروع کردیا اور بورڈ میں اپنی میٹنگ بڑھادی بورڈ آفس کے لئے ان بیانات دیکھ کر میں بہت خوش ہورہا تھا کہ اب یقینی طور پر سندھ کے بچوں کا بھلا ہوگا جیسے جیسے دن قریب آتے گئے بیانات میں سختی آگئی اور امتحانات سے بائیکاٹ کے اعلانات ہونے لگے جس پر بورڈ کے چیئرمین پریشر میں نظر آنے لگے۔
پس پردہ کہانی کیا تھی
مجھے دکھایا گیا کہ پس پردہ کہانی کچھ اور تھی اور وہ کہانی ہزاروں یا لاکھوں روپیوں کے کرپشن کی نہیں بلکہ کروڑوں روپے کمانے کی نویدیں تھی کیونکہ امتحانات سے ایک مہینہ قبل فیک انرولمنٹ
(Fake Enrolment)
کا سلسلہ جاری ہونا تھا کہ ہائیر سیکنڈری اسکولوں اور مضافات میں قائم کالجز میں ایک مافیہ یک دم متحرک ہوگئی اور کراچی کے وہ بچے جن کو یقین ہوتا ہے کہ وہ امتحانات میں فیل ہوجائیں گے انہوں نے مافیہ سے رابطہ کیا اور اپنی انرولمنٹ کی ڈیل کرنا شروع کی اب کراچی کے فرسٹ ایئر کے بچے اور ان کے والدین ھائیر سیکنڈری اسکولوں میں داخلے کے لئے بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر ٹھٹہ گھوڑاباری گھارو کی رواں دواں پنجاب کے بچے میرپور ماتھیلو عادل پور گھوٹکی کے لئے بلوچستان کے بچے کشمور کندھ کوٹ جیکب آباد کے لئے اور خیبر پختوں خواہ کے بچے کراچی سکھر کے لئے رواں ہوگئے۔
بورڈ پر آخری مہینے میں پریشر ڈالنے کے لیے ایسے بیانات جاری ہوتے ہیں تاکہ جعلی داخلوں پر توجہ کم ہو اور ان مافیہ کے کام بآسانی ہوجائیں
مزید پڑھیں:ہائر ایجوکیشن کمیشن ماہرین کا جے ایس ایم یو کا دورہ
جعلی داخلوں کرنے والی مافیا کروڑوں روپے کی کرپشن
اب بچوں کو منزل تک پہچانے کے لیے والدین کسی حد تک جاتے ہیں وہ ان مافیہ سے بات کرتے ہیں جن کی سربراہی ایسوسی ایشن کرتی ہے اور ان کے تعلقات بورڈ یونیورسٹی تک ہوتے ہیں کراچی سے تقریبا 5000 سے زائد انرولمنٹ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں ہوتا ہے۔
جو اوسطا 50,000 سے لیکر ایک لاکھ تک خرچہ لیا جاتا ہے یہ مافیا صرف فرسٹ ایئر کے امتحانات میں کم از کم 20 کروڑ تک کماتے ہیں جس کا حصہ برابری طور سب میں تقسیم ہورہا تھا اور پنجاب والے بچوں کو سختی کا کہہ کر ان سے بھی چند ہزار زیادہ لئے جارہے تھے وہاں بھی 50 کروڑ سے زائد کی کرپشن کی جارہی تھی۔
یہی حال بلوچستان اور کے پی کے بچوں کے ساتھ اس مافیا میں وہ لوگ زیادہ نظر آئے جو بورڈ کے خلاف بیانات جاری کررہے تھے اور فیس بک پر جن کی پوسٹیں صرف کرپشن کے لئے نظر آرہی تھی۔
جعلی داخلوں کے بعد امتحانات کا موسم شروع ہوا
انرولمنٹ اور امتحانات کے فارم کے بعد ایڈمٹ کارڈ بھی بہت بڑا دھندا ہے بورڈ آفس کے کارندوں سے لیکر اسکول اور کالجوں میں بیٹھے مافیا اس کو مکمل ایمانداری کے ساتھ کرتے ہیں ایڈمٹ کارڈ کا اجراء ہوتا ہے اور بورڈ پریس ریلیز جاری کرنا شروع کرتی ہے کہ ایڈمٹ کارڈ لے جائیں لیکن وہ اعلان ہوتا ہے۔
مافیا کو active کرنے کے لئے کہ اب بورڈ آپ کے کلائنٹ کے ایڈمٹ کارڈ روکے گی اب زیادہ ڈیمانڈ نہیں کرنا بس کہنا EC نہیں بنا اس کا مطلب ہے eligiblity Certificate جو کرپشن کی چابی ہے پھر کلائنٹ سے اوسطا 5000 لئے جاتے ہیں تاکہ ان کا ایڈمٹ کارڈ جاری کیا جائے۔
مزید پڑھیں:غیر رجسٹرڈ اسکول ایسوسی ایشن کی من مانی مراکز کے قیام کیلئے دباؤ ڈالنے کی بھونڈی کوشش
ہر بورڈ تقریبا لاکھ بچوں میں سے 5000 ہزار ایڈمٹ کارڈ روکتا ہے اس میں 1000 جائز وجوہات پر باقی کمانے کے لئے روکے جاتے ہیں اس لئے آپ انرولمنٹ سیکشن اور کنٹرولر کو کسی منسٹر سے کم پروٹوکول میں نہیں دیکھیں گے۔
گورنمنٹ کالجز میں یہ دھندا ختم ہی ہوچکا ہے لیکن مضافات کے کالجز اب بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں لیکن ہائیر سیکنڈری اسکول صرف مقصد کے لیے باقی ہیں
جعلی داخلوں کو پکڑنا کوئی مشکل کام نہیں
صرف بورڈ یہ ریکارڈ دے کہ اس کے پاس اس سال کتنے eligiblity Certificate بنے ہیں انکا 95% جعلی داخلوں کا ہے۔
میں نے خواب میں دیکھا کہ اینٹی کرپشن والوں نے تمام بورڈ پر چھاپا مارا اور دوسرے شہروں اور دوسرے صوبوں کا ریکارڈ طلب کرلیا جس پر معلوم ہوا کہ فیلڈ میں موجود مافیا کے ذریعے ہزاروں جعلی داخلے ہوئی جس میں ہائیر سیکنڈری اسکولوں کالج کے پرنسپل کے جعلی دستخط تھے اور کہیں یہ لوگ بھی ملوث تھے ہر ڈسٹرکٹ میں موجود مافیا کے سرغنوں کو ایف آئی نے گرفتار کرلیا اور جعلی داخلوں کو کینسل کیا گیا۔
ان سرغنوں کے سربراہان کا پتا لگا لیا گیا ان کے مالی اثاثے ضبط کئے گئے پریشر گروپ بنانے والے ایسوسی ایشن پر پابندی لگائی گئی
مزید پڑھیں:جامعہ کراچی اور دو اطالوی جامعات کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط
بورڈ کے امتحانات کے ایک ہفتہ قبل کا موسم
بورڈ کے امتحانات سے قبل مافیا نے اپنے بلوں سے باہر نکلنا شروع کردیا کیونکہ ٹھیکہ نقل کروانے کا بھی ہے اس لئے اب گروپ کی شکل میں بورڈ جانا شروع کیا کہ انٹرل اور ایکسٹرنل اس مافیا کے ہونگے تو کاپی کروانا زیادہ آسان ہوگا اس لئے اب اپنی اصل پڑھانے کی ڈیوٹی چھوڑ کر بورڈ کے امتحانات میں ڈیوٹی لگوانے کے لئے سفارشات واٹس کے گروپ بنائے جارہے ہیں۔
وہ لوگ جو سارا سال مجھے طعنہ دے رہے تھے کہ بھائی استاد ہو کالج آکر پڑھاؤ وہ ڈگری کلاسز چھوڑ کر حیدرآباد والا ٹھٹہ سجاول بدین اپنی ڈیوٹی لگوا رہا ہے ویسے وہاں ٹرانسفر کریں تو ظلم ہے لیکن اس موسم بہار میں عزت ہے کیونکہ یہ خاموش مافیا ہیں جن کو ان مضافاتی علاقوں میں پروٹوکول چاہیے اور اچھا کھانا پینا۔
لیکن بیچارے یہ شہر کے سادے لوگ سمجھتے ہیں ہم کاپی کرنے دے رہے ہیں تو ہمیں اچھا کھانا مل رہا ہے لیکن غریب کو پتا نہیں اسکی ایمانداری کروڑوں میں بک رہی ہوتی ہے
مزید پڑھیں:محترمہ مہتاب جہاں نے ڈائریکٹر ایجوکیشن بلدیہ وسطی کا چارج سنبھال لیا
نقل مافیا والوں کے عہدے کیا ہیں
میں نے خواب میں دیکھا کہ بورڈ کے ساتھ میٹنگ کرنے والے نان ٹیچنگ اسٹاف والے نہیں تھے پریشر گروپ بھی نان ٹیچنگ اسٹاف کے نہیں تھے پھر کس کی ڈیوٹی کہاں لگے گی اس کا پریشر ڈالنے والے لوگ بھی نان ٹیچنگ اسٹاف کے نہیں تھے CCO بھی جو پیپر لیکر سینٹر پر جاتا ہے وہ بھی نان ٹیچنگ اسٹاف سے نہیں تھا وقت سے قبل سیل کھول کر پیپر پہچانے والے بھی نان ٹیچنگ اسٹاف کے نہیں تھے۔
ہر سینٹر میں خاص کمرا بنانے والے بھی نان ٹیچنگ اسٹاف کے نہیں تھے امتحانات میں سینٹر میں ڈیوٹی لگانے والے بھی نان ٹیچنگ اسٹاف کے نہیں تھے کمرہ امتحان میں ڈیوٹی دینے والے ایک کی جگہ دوسرے کو چھوڑنے والے پھر جوابی کاپیوں کو باہر نکلوانے والے اور سینٹر میں موبائل کی اجازت دینے والے بھی نہ بورڈ والے تھے نہ نان ٹیچنگ اسٹاف کے لوگ تھے۔
مجھے خوشی ہورہی تھی بورڈ سے پیپر لیکر آنے والے سے لیکر واپس پہچانے والے لوگ اتنے ایماندار تھے کہ کہیں بھی کچھ نہیں ہونے دیا جس میں بورڈ کا ایک بھی بندہ نہیں تھا۔
مزید پڑھیں:جامعہ کراچی: بی کام ریگولر کے امتحانی فارم جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع
مجھے ایک ایماندار نظر آیا
ایک سینٹر پر مجھے سپریڈنٹ نظر آیا جس نے کاپی لانے والے سے بحث کی اور اس کی شکایت اینٹی کرپشن کو کردی اور ڈپارٹمنٹ کو بھی فورا لکھ کر دیا کہ اس شخص نے سیل کھول کر پیپر آوٹ کیا ہے.
ڈپارٹمنٹ کے پاس واضح ثبوت ہونے کی وجہ سے اس کو فورا سسپینڈ کردیا اس سینٹر سپریڈنٹ نے اکیلے پورے سینٹر سے کاپی کلچر کا خاتمہ کیا کمرہ امتحانات میں ڈیوٹی دینے والوں کو کہا اگر آپ کے کمرے میں معمولی سی چیٹنگ ہوئی ڈپارٹمنٹ کو لکھوں گا باہر سے کسی کو اندر آنے نہیں دیا موبائل فون سمیت کسی سپورٹنگ مٹیریل پر پابندی لگادی میں معلوم کیا تو پتا چلا یہ ایماندار استاد ہے جو کالیج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے.
(جاری ہے)